حج کے متعلق وائرل ویڈیو: حقیقت کیا، فسانہ کیا؟ font-family: 'Noto Sans Arabic', sans-serif; -->

Ad

Ticker

6/recent/ticker-posts

Ads

حج کے متعلق وائرل ویڈیو: حقیقت کیا، فسانہ کیا؟


          پاکستان کے سیاسی اُتار چڑھاؤ اور گہما گہمی میں اکثر ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ کارکنان چاہے مذہبی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں یا سیاسی جماعت سے، وہ اپنے قائدین کی شہرت بڑھانے کے چکر میں ان سے منسوب فیک/ایڈٹ شدہ تصاویر/ویڈیوز شیئر کرتے ہیں

          گزشتہ روز بھی سوشل میڈیا پر کچھ اسی طرح کی صورتحال دیکھی گئی جب معروف سیاسی و مذہبی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان کے کارکنان نے حج کے متعلق علامہ خادم حسین رضوی صاحب سے منسوب ویڈیو وائرل کرنا شروع کردی

          تفصیلات کے مطابق 10 جولائی بروز اتوار مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز (ٹویٹر، فیسبک، واٹس ایپ وغیرہ) پر "الغد" چینل کی ایک ویڈیو وائرل ہونا شروع ہوئی جس میں حجاج کرام میدان عرفات سے مزدلفہ کی طرف جارہے تھے اور ویڈیو کے پسِ منظر آواز علامہ خادم حسین رضوی صاحب کے عربی خطبے کی سنائی دے رہی تھی جس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ.........

ترکی کے چینل پر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا آخری خطبہ بزبان امیر المجاہدین حضرت علامہ مولانا حافظ خادم حسین رضوی


ہماری ریسرچ ٹیم نے جب ویڈیو کا چند منٹوں میں فرانزک کیا تو اصل حقائق کھل کر سامنے آگئے

          عقدہ کیا کُھلا؟ کہ "الغد" نامی عربی چینل کا تعلق تُرکی سے نہیں بلکہ یہ مصر کا ڈیجیٹل چینل ہے جو ملکی اور غیرملکی خبروں سے آگاہ کرتا رہتا ہے، جبکہ وائرل شدہ ویڈیو سال 2019 کے حج کے موقع کی ہے جس میں مذکورہ چینل حج کے مختلف مناظر دکھا رہا تھا اور اپڈیٹ جاری کررہا تھا


تو پھر پسِ منظر خطبۂ حج کا کیا معاملہ ہے............؟؟؟؟؟ 

          تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ یہ ویڈیو چینل کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے لے کر اس کے پسِ منظر علامہ خادم حسین رضوی صاحب کے عربی خطبہ کی آڈیو لگا دی گئی، یعنی ویڈیو میں وائس ایڈٹ کر دی گئی

          حالانکہ اصل ویڈیو میں صاف سنائی دیا جارہا کہ حجاجِ کرام تلبیہ کہنے کی آڈیو اور مناظر کے ساتھ چینل حج کے متعلق باخبر کررہا ہے

          ویڈیو ایڈٹ کرنے والوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں شاید ہی کوئی ایسی چیز ہو کہ جس کی کھوج لگانا ممکن نہ ہو 

          فیک ڈیٹا وائرل کرنا ناصرف اخلاقی اور سماجی طور پر قبیح عمل ہے بلکہ دینِ اسلام میں بھی اس کی سخت ممانعت ہے، کیونکہ اپنے مقاصد کے حصول کےلیے یہ بھی جھوٹ کے پھیلاؤ کا ایک ذریعہ ہے جس سے لوگوں کو حقائق توڑ مروڑ کر پیش کیے جاتے ہیں، نتیجتاً جہالت اور اندھی تقلید سے معاشرہ مزید گراوٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور ہم ملک و ملت کا ناقابلِ تلافی نقصان کر بیٹھتے ہیں

          لہذا سوشل میڈیا صارفین سے گزارش ہے کہ جب بھی کوئی مشتبہ مواد نظر سے گُزرے تو اندھا دھند پھیلانے سے پہلے ایک مرتبہ ضرور تصدیق کرلیں آیا کہ حقائق اسی طرح ہیں یا اس سے برعکس ہیں؟ یا ایسے ذرائع سے رجوع کریں جو اپنے کام میں ماہر ہوں اور آپ کو حقائق سے آگاہ کریں تاکہ جھوٹ کے پھیلاؤ کا جلد از جلد تدارک مکمن ہو اور آئندہ اس کی حوصلہ شکنی کی جائے


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Ads